Vous êtes sur la page 1sur 28

‫با ِر حروف‬

‫ل احمد‬
‫سید آ ِ‬
‫با ِر حروف‬

‫ل احمد‬
‫سید آ ِ‬

‫پیدائش‪1932 :‬ء )میرٹھ(‬


‫وفات‪ 20 :‬اکتوبر ‪1999‬ء )بہاولپور(‬
‫قلمی نام‪1960 :‬ء تک بیدل میرٹھی‬
‫بعدازاں اصلی نام سید آل احمد‬

‫پہل شعر‪:‬‬
‫توقع تھی دعائے زود اثر سے‬
‫ادھر سے میں چلوں گا‪ ،‬وہ ادھر سے‬
‫‪۱۹۴۶‬ء‬
‫ف ہرست‬
‫بارِ حروف‪1.........................................................‬‬
‫بارِ حروف‪2.........................................................‬‬
‫آراء‪4..................................................................‬‬
‫حمد‪8.................................................................‬‬
‫نعت‪9.................................................................‬‬
‫غزلیں‪10.............................................................‬‬
‫ل گدازِ حیات دے دے گا ‪10......................‬‬ ‫بدن کو غس ِ‬
‫وقت کے طشت میں رکھا ہوا پتھر ہوں میں ‪11...........‬‬
‫زرد جذبے ہوں تو کب نشوونما ملتی ہے ‪12................‬‬
‫شہر کے محتاط موسم سے خبر آئی تو ہے ‪14.............‬‬
‫ترے لہو میں ہے شامل مرے خلوص کی بو ‪15.............‬‬
‫اب حل مسائل کوئی سوچا نہیں جاتا ‪16...................‬‬
‫یاد آؤں گا ُاسے‪،‬آ کے منائے گا مجھے ‪17.....................‬‬
‫س لب بڑھا کہ بدن ڈولنے لگا ‪19.......................‬‬ ‫وہ حب ِ‬
‫جب سے پیدا ہوا ہوں تنہا ہوں ‪20.............................‬‬
‫بے سبب کون سا سینہ ہے جو شق ہوتا ہے ‪22..............‬‬
‫ہمارے گھر کے آنگن میں گھٹا کس روز آئے گی ‪23.......‬‬
‫سامنے والے گھر میں بجلی رات گئے تک جلتی ہے ‪24. . .‬‬
‫قصرِ سحر میں ہوں کہ کسی شب کدے میں ہوں ‪25....‬‬
‫مری نظر نے خل میں دراڑ ڈالی ہے ‪26......................‬‬
‫چھپے گی سامنے آ کر یہ خستہ حالی کیا ‪27................‬‬
‫آراء‬
‫’سب سے ہٹ کر بات کرنے وال ایک علیحدہ لغت لئے اپنی‬
‫ل احمد مجھے پہلی‬ ‫علیحدہ زبان میں شاعری کرنے وال آ ِ‬
‫ہی ملقات میں اچھا لگا کہ سچ بول رہا تھا۔وہ ادب کے‬
‫روایتی وڈیروں کے خلف تھا۔کبھی کسی کو چھپنے کے‬
‫لئے کچھ نہیں بھیجا۔ چھوٹی جگہ پر بیٹھ کر اچھی شاعری‬
‫ل احمد صاف دل لئے چپ چاپ یہاں سے چل‬ ‫کرنے وال آ ِ‬
‫گیا ۔‘‘‬
‫)منیر نیازی(‬

‫ل احمد وہ تار ہے جس پر جیسی ضرب لگے‪ ،‬ویسی‬


‫’آ ِ‬
‫صدا آتی ہے‘‬
‫)حمایت علی شاعر(‬

‫‪۱۹۸۰‬ء میں سترہ برس کے بعد بہاول پور جانا ہوا تو یہ‬
‫محسوس کر کے خوشگوار حیرت ہوئی کہ یہ ُپرسکون‬
‫شہر ُاس حد تک نہیں بدل تھا کہ جس حد تک اتنے عرصے‬
‫کے بعد آنے والوں کو اندیشہ ہو سکتا ہے۔ اس کے مانوس‬
‫خد و خال مجھے جوں کے توں نظر آئ ے ۔ سائیکل رکشا‬
‫بھی ُاس زمانے تک چل رہے ت ھے ۔ بیکانیری گیٹ اب فرید‬
‫گیٹ کہلنے لگا تھا مگر ُاس کی شکل و شباہت بھی جوں‬
‫کی توں تھی۔ ُاس کے برابر میں پان والے کی دکان بھی‬
‫ل احمد کھڑے‬ ‫موجود تھی۔ مجھے خیال آیا کہ یہاں سّید آ ِ‬
‫رہا کرتے تھے۔ دیکھتا کیا ہوں کہ وہ ُاس وقت بھی کھڑے‬
‫ہیں۔ ہاں یہ فرق ضرور آ گیا تھا کہ اب وہ سوٹ میں‬
‫ملبوس ت ھے ۔‬
‫پہلی بار جب ‪۱۹۶۲‬ء میں عربی کے لیکچرار کی حیثیت‬
‫سے میں گورنمنٹ انٹر کالج بہاول پور آیا تو جن لوگوں‬
‫سے بہت جلد مانوس ہو گیا اور جن کی صحبت میں لہور‬
‫دور وہ اداس شام و سحر اچھے گزر جاتے تھے ان‬ ‫سے ُ‬
‫ل احمد کو ایک نمایاں حیثیت حاصل تھی ۔ ُاس‬ ‫میں سید آ ِ‬
‫زمانے میں وہ مستقل ً گیروا کرتا اور چھوٹے پائنچوں کا‬
‫سفید پاجامہ پہنا کرتے تھے۔ بیکانیری گیٹ کے برابر میں‬
‫حبیب ہوٹل تھا اور اس سے ذرا آگے ایک سادہ سا نیا ہوٹل‬
‫ہمارے سامنے ہی شروع ہوا تھا ’’باغ و بہار ہوٹل‘‘ ۔ کالج‬
‫سے واپسی پر اور پھر شام کو ہم چند لیکچرار کھانا یہیں‬
‫کھاتے تھے۔ شہر کے جو ادیب و شاعر حضرات یہاں‬
‫ل احمد سب سے‬ ‫مستقل ً چائے پینے آتے تھے ان میں سید آ ِ‬
‫زیادہ باقاعدہ تھے۔ چنانچہ ُان سے ملقات روزانہ کا معمول‬
‫تھا۔ ’’باغ و بہار ہوٹل‘‘ میں شعر و سخن کی محفل بھی‬
‫خوب جمتی ۔ ہوٹل کے مالک ایک معمر بزرگ ت ھے ۔ نام یاد‬
‫نہیں۔ بڑے خلیق آدمی تھے۔ ہمیں دور سے آتا دیکھتے تو‬
‫گرم روٹیاں لگوانا شروع کر دیتے‘ اور ہماری طویل ادبی‬
‫نشستوں سے الجھن محسوس کرنے کے بجائے بہت خوش‬
‫ح دل‬ ‫ُ‬
‫ل احمد کے اس زمانے کے کچھ شعر لو ِ‬ ‫ہوتے۔ سید آ ِ‬
‫پر’ ُان کی آواز میں‘ اب تک نقش ہیں‪:‬‬

‫ہنگامہ سرا مصر کا بازار نہیں اب‬


‫حسن طرح دار نہیں اب‬ ‫یوسف سا کوئی ُ‬

‫ہو بھی تو کوئی ُاس کا خریدار نہیں اب‬


‫ن زلیخا میں کوئی تار نہیں اب‬‫داما ِ‬
‫ہم تو ہیں ہمیں سنگ و گل و خشت سے مارو‬
‫منصور اگر کوئی سرِ دار نہیں اب‬

‫یہ اشعار سید صاحب اکثر مشاعروں اور شعری‬


‫نشستوں میں تواتر کے ساتھ سنایا کرتے ت ھے ۔ ایک اور‬
‫غزل تھی‪:‬‬

‫پر شکستہ کسی سہمے ہوئے طائر کی طرح‬


‫وقت کے کانپتے ہاتھوں میں نہ مرنا اب کے‬
‫سید آل احمد نے ایک اچھے شاعر اور محبت کرنے والے‬
‫انسان کی حیثیت سے بہت جلد ہمارے دلوں میں گھر کر‬
‫لیا۔ ُان کے کلم میں روایت سے پیوستگی کے ساتھ ایک‬
‫تخلیقی لپک تھی جو ُان کے کلم کو محض ’’روایتی‘‘ بن‬
‫جانے سے بچاتی تھی اور فنی خد و خال میں ان کی‬
‫انفرادیت کو ُابھار کر سامنے لتی تھی ۔‬
‫سید صاحب چونکہ خود مست شاعر تھے اور ُاس زمانے‬
‫دور تک تعارف رکھنے کے باوجود پی آر کو‬ ‫دور ُ‬
‫میں ُ‬
‫سیڑھی کے طور پر استعمال کرنے کا فن نہیں جانتے تھے‬
‫اس لیے آگے چل کر کہنی مار دوڑ میں شمولیت نہ کر‬
‫سکے اور ہر چند کہ خواص ان کے فنی مرتبے سے ناواقف‬
‫نہ تھے‘ وہ ’’لئم لئٹ‘‘ سے دور ہوتے چلے گئ ے ۔ ان کا بس‬
‫ایک مختصر سا مجموعہ ’’صریرِ خامہ‘‘ کے عنوان سے‬
‫‪۱۹۶۴‬ء میں بہاول پور ہی سے شائع ہوا جس کی پذیرائی‬
‫کرنے والوں میں ماہر القادری‪ ،‬حمایت علی شاعر‪ ،‬اختر‬
‫انصاری اکبر آبادی‪ ،‬محمد احسن فاروقی‪ ،‬منظور حسین‬
‫شور اور دیگر کئی ممتاز سخن شناس شامل ت ھے ۔‬
‫ایک طویل عرصے کے بعد جب نوید صادق نے اطلع دی کہ‬
‫سید صاحب بسترِ عللت پر ہیں اور ان کا ایک اور‬
‫مجموعہ اشاعت کے لیے تیار ہے ‪ ،‬جس پر مجھے بھی کچھ‬
‫اظہارِ خیال کرنا ہے تو مجھے بڑی مسرت ہوئی اور میں‬
‫نے محسوس کیا کہ یہ اظہارِ خیال تو میرے لیے خود اپنی‬
‫عمرِ رفتہ کو آواز دینے کے مترادف ہوگا لیکن عجیب تلخ‬
‫اتفاق یہ ہوا کہ اگلے روز جب نوید صادق مسود ّہ میرے‬
‫حوالے کرنے آئے تو میں اخبار میں سّید صاحب کی رحلت‬
‫کی خبر پڑھ چکا تھا‪ ،‬جس کا خود نوید صادق کو علم نہ‬
‫تھ ا ۔‬

‫گ‬
‫ل احمد کا یہ تازہ مجموعہ ان کے مخصوص رن ِ‬ ‫سید آ ِ‬
‫ت احساس‪ ،‬رومانیت‪ ،‬روایت‬‫سخن کا آئینہ دار ہے‪ ،‬جو شد ِ‬
‫اور جدت کے ایک دلکش امتزاج سے عبارت ہے ۔ چند شعر‬
‫ملحظہ ہوں‬
‫میری خاطر نہ تکلف کیجئے‬
‫میں تو کا نٹوں پہ بھی سو جاتا ہوں‬

‫پتھر کہیں گے لوگ‪ ،‬سرِ رہ گزر نہ بیٹھ‬


‫چہروں کی دھوپ چھاؤں میں یوں بے خبر نہ بیٹھ‬

‫احمد ہوائے شہر مخالف بھی ہے اگر‬


‫خائف نہ ہو‪ ،‬نظر نہ چرا‪ ،‬چھپ کے گھر نہ بیٹھ‬

‫کیسے ٹھہرے ہو سوچ میں احمد‬


‫اتنی سردی میں رات کو تنہا‬

‫کس مسافت کے بعد پہنچا ہے‬


‫تیرے ُرخسار پر مرا آنسو‬

‫افسوس کہ ہم اس مجموعے کا استقبال بہت دیر سے کر‬


‫ت ظاہری کی اہمیت کچھ‬ ‫دنیائے فن میں حیا ِ‬‫رہے ہیں۔ تاہم ُ‬
‫زیادہ نہیں۔ امید ہے کہ یہ مجموعہ سّید صاحب کے لیے بقائے‬
‫دوام کا ضامن ہوگا ۔‬

‫)ڈاکٹر خورشید رضوی(‬

‫****‬
‫حمد‬
‫میں تری ذات کے صدقے‪ ،‬ترے قرباں مول‬
‫میرا ہر سانس ہے‪ ،‬ہر پل ترا احساں مول‬
‫عمر تکتے درِ امیدِ سکوں بیت گئی‬
‫اور کب تک مجھے رکھے گا پریشاں‪ ،‬مول‬
‫ت نظارہ کا آئینہ ہوں‬
‫آج تک حیر ِ‬
‫ایک لمحہ کو ہوا تھا کوئی مہماں‪ ،‬مول‬
‫اب تو چہروں کی طرح روپ بدلتی ہے ہوا‬
‫اب تو ہوتا نہیں موسم کا بھی عرفاں‪ ،‬مول‬
‫گل کر دیے جذبوں کے چراغ‬ ‫کون سے خوف نے ُ‬
‫مطمئن ایک بھی ملتا نہیں انساں‪ ،‬مول‬
‫میرا گھر کیسے بچے گا کوئی تدبیر سجھا‬
‫ش دوراں‪ ،‬مول‬‫دستکیں دینے لگی گرد ِ‬
‫کیسے سرسبز و ثمر بار ہو چاہت کا شجر‬
‫ت جاناں مول‬
‫ہو گیا خواب وہ خوش قام ِ‬
‫اب سکت ہی نہیں سوچوں کو کھنڈر کرنے کی‬
‫اب نہ کیجے کوئی تقسیم ِ گلستاں‪ ،‬مول‬

‫اس مسافت کا تقاضہ تو یہی ہے احمد‬


‫صبح‪ ،‬تعبیر کرے‪ ،‬شام‪ ،‬زر افشاں مول‬
‫***‬
‫نعت‬
‫لب پر ہے جو نام محمد صلی اللہ علیہ و سلم‬
‫یہ بھی ہے انعام محمد صلی اللہ علیہ و سلم‬
‫س جنوں پر‬ ‫س خرد پر ‪،‬طا ِ‬ ‫ایک اک نکتہ اسم مجسم‪ ،‬طا ِ‬
‫خلق سراپا نام محمد صلی اللہ علیہ و سلم‬
‫گرم سفر ہوں صحرا صحرا‪ ،‬دل مشعل ہے‪ ،‬آنکھ منور‬
‫یہ بھی ہے اکرام محمد صلی اللہ علیہ و سلم‬
‫ف عطا ہے‬ ‫میرے لب پر ان کی ثنا ہے‪ ،‬عاصی پر کیا لط ِ‬
‫دیکھو یہ انعام محمد صلی اللہ علیہ و سلم‬
‫ب تپاں ہے‬ ‫ن قل ِ‬
‫ہے وج ِہ سکو ِ‬‫ح رواں ‪،‬‬
‫نغمۂ جاں ہے‪ ،‬رو ِ‬
‫ایسا ہے پیغام محمد صلی اللہ علیہ و سلم‬
‫شہرِ علم کا دروازہ ہے‪ ،‬گمراہوں کو خضر کی صورت‬
‫تشنہ لبوں کو جام محمد صلی اللہ علیہ و سلم‬
‫ح ازل ہے‪ ،‬شام ِ ابد ہے‬ ‫ُ‬
‫ان کے کرم کی کوئی حد ہے‪ ،‬صب ِ‬
‫آئینۂ ایام محمد صلی اللہ علیہ و سلم‬
‫سر تا پا اخلق و محبت‪ ،‬پیکرِ حلم و فہم و طہارت‬
‫قامت و قدِ نام محمد صلی اللہ علیہ و سلم‬

‫ہر لحظہ ‪ ،‬ہر آن ہے احمد ُان کا کرم اور ُان کی عنایت‬


‫ض عام محمد صلی اللہ علیہ و سلم‬ ‫ہم پر فی ِ‬
‫***‬
‫غزلیں‬
‫ل گدازِ حیات دے دے گا‬
‫بدن کو غس ِ‬
‫ترا خلوص مجھے اب کے مات دے دے گا‬

‫یہ جڑتے ٹوٹتے کاذب مراسموں کا دیار‬


‫مرے یقیں کی صداقت کا سات دے دے گا‬

‫میں تھک گیا ہوں کڑی دھوپ کی مسافت سے‬


‫کوئی سراب‪ ،‬تبسم کی رات دے دے گا؟‬

‫دعا کو ہاتھ اٹھاؤں تو کس طرح معبود‬


‫جو میں کہوں تو مجھے کائنات دے دے گا‬

‫یقین جان کہ ہر دکھ کو بھول جاؤں گا‬


‫تو میرے ہاتھ میں جب اپنا ہات دے دے گا‬

‫یہ مفلسی کا تسلسل‪ ،‬ضرورتوں کا محیط‬


‫ن ذات دے دے گا‬
‫مجھے سلیقۂ تزئی ِ‬
‫وہ ایک لفظ مرے دل پہ ثبت ہے احمد‬
‫ح ثبات دے دے گا‬‫مری غزل کو جو رو ِ‬
‫وقت کے طشت میں رکھا ہوا پتھر ہوں میں‬
‫حرف کا دشت ہوں‪ ،‬معنی کا سمندر ہوں میں‬

‫کون جانے کہ یہ خوشبو ہے عبارت مجھ سے‬


‫کیسے سمجھاؤں کہ پھولوں کا مقدر ہوں میں‬

‫مجھ کو آتا نہیں کاندھے پہ جنازہ رکھنا‬


‫منجمد شہر! حرارت کا پیمبر ہوں میں‬

‫اب بھی آتی ہے ترے قرب کے ایام کی آنچ‬


‫اب بھی احساس کا ذخار سمندر ہوں میں‬

‫چرا‬
‫آخرِ شب ہے‪ ،‬مری ذات سے نظریں نہ ُ‬
‫اے غم ِ ہجر! ترے قد کے برابر ہوں میں‬

‫ظ مراتب کا بہت قحط ہے اب‬ ‫شہر میں حف ِ‬


‫آپ چاہیں تو چلے آئیں کہ گھر پر ہوں میں‬
‫زرد جذبے ہوں تو کب نشوونما ملتی ہے‬
‫فن کو تہذیب کی بارش سے جل ملتی ہے‬

‫سر میں سودا ہے تو چاہت کے سفرپر نکلیں‬


‫کرب کی دھوپ طلب سے بھی سوا ملتی ہے‬

‫کون سی سمت میں ہجرت کا ارادہ باندھیں‬


‫کوئی بتلئے کہاں تازہ ہوا ملتی ہے‬

‫س قزح کی صورت‬ ‫چاند چہرے پہ جواں قو ِ‬


‫تیری ُزلفوں سے گھٹاؤں کی ادا ملتی ہے‬

‫ہم تو پیدا ہی اذیت کے لیے ہوتے ہیں‬


‫دکھ میں بھی ُدعا ملتی ہے‬
‫ہم فقیروں سے تو ُ‬

‫ل جاناں کا سفر‬
‫دشوار ہے اب منز ِ‬‫کتنا ُ‬
‫ب بدن آبلہ پا ملتی ہے‬
‫خواہش قر ِ‬
‫بے نمو شاخوں سے پتوں کو شکایت کیا ہو‬
‫اب تو پیڑوں کو بھی مشکل سے غذا ملتی ہے‬

‫اور بڑھنے دو گھٹن خوف نہ کھاؤ اس سے‬


‫ک بقا ملتی ہے‬
‫ت حبس سے تحری ِ‬‫شد ِ‬
‫کبھی فرصت کی کوئی شام سحر تک دے دے‬
‫یوں جو ملتی ہے سرِ راہے تو کیا ملتی ہے‬

‫سر سے چادر نہ ُاتارو مرے اچھے فنکار!‬


‫برہنہ حرف کو معنی کی ردا ملتی ہے‬

‫تیرا انصاف عجب ہے مرے جبار و غنی!‬


‫جرم ہم کرتے ہیں بچوں کو سزا ملتی ہے‬

‫جب سے تنہائی کو اوڑھا ہے بدن پر احمد‬


‫تمکنت لہجے میں پہلے سے سوا ملتی ہے‬
‫شہر کے محتاط موسم سے خبر آئی تو ہے‬
‫ط معتبر آئی تو ہے‬
‫رقص میں ضد پر نشا ِ‬
‫ل خامشی اک مرد نے‬ ‫شکر ہے توڑا تو قف ِ‬
‫ض ہنر آئی تو ہے‬
‫ت عر ِ‬‫مدتوں میں جرا ِ‬
‫گھپ اندھیرے میں تبسم کا دیا روشن کریں‬
‫زندہ رہنے کی یہ اک صورت نظر آئی تو ہے‬
‫قربتوں کے سرد ہاتھوں میں لیے خفگی کے پھول‬
‫دوستی نظارگی کے بام پر آئی تو ہے‬
‫ہم یہ سمجھے تھے کہ آنکھیں زرد ہو جائیں گی اب‬
‫ل گل صحن چمن میں لوٹ کر آئی تو ہے‬ ‫فص ِ‬
‫دکھ تو ہم نے سہہ لیے اب دیکھئے آگے ہو کیا‬
‫ُ‬
‫ح نو کی رہگذر آئی تو ہے‬‫انقلب صب ِ‬
‫ہے خجل قد سہی اخلص کی تضحیک پر‬
‫آبرو مندی کی اب ُامید بر آئی تو ہے‬
‫بے سبب جس نے قبیلے میں کیا ُرسوا مجھے‬
‫ُاس کے چہرے پر تھکن کی دوپہر آئی تو ہے‬
‫آؤ احمد بڑھ کے لیں تکریم سے ُاس کے قدم‬
‫ل وقت گھر آئی تو ہے‬‫تم سے ملنے ِاک غزا ِ‬
‫ترے لہو میں ہے شامل مرے خلوص کی بو‬
‫مجھے ُاجاڑنے والے! مرا شعور ہے تو‬

‫میں تیرے شہر میں یوں صبح و شام کاٹتا ہوں‬


‫نڈھال زخموں سے ہو جیسے دشت میں آہو‬

‫خدا کے واسطے یہ کھیت مت ُاجاڑنے دو‬


‫زمیں کی کھاد بنا دو بدن کا گرم لہو‬

‫میں تیرے نام کا کتبہ ُاٹھائے پھرتا ہوں‬


‫جبین دہر کی تابندگی! کہاں ہے تو‬

‫فقی ِہ شہر بتا اتنی قحط سالی کیوں‬


‫ہے اختیار تو کر ان کی بھوک کا دارو‬

‫زبان و حرف قفس ہوں‪ ،‬خیال و فکر صلیب‬


‫تم ان خطوط پہ دو گے دماغ و دل کو نمو‬

‫نکھر رہے ہیں نئی ُرت میں خار و خس احمد‬


‫بکھر رہی ہے چمن میں گلب کی خوشبو‬
‫اب حل مسائل کوئی سوچا نہیں جاتا‬
‫حالت کے گرداب سے نکل نہیں جاتا‬

‫اب گھر میں سکوں کی کوئی تصویر نہیں ہے‬


‫اب شہر کی سڑکوں پہ بھی گھوما نہیں جاتا‬

‫ہر آنکھ جہاں سنگ ملمت لیے ُاٹھے‬


‫آئینۂ احساس بچایا نہیں جاتا‬

‫دل پاؤں پکڑتا ہے مگر لب نہیں ہلتے‬


‫اب جاتے ہوئے شخص کو پکڑا نہیں جاتا‬

‫سوچوں تو ُابھرتے نہیں خال و خد الفاظ‬


‫چاہوں بھی تو اب خط ُاسے لکھا نہیں جاتا‬

‫دکھ مجھے زنجیر کیے ہے‬ ‫ہر لمحہ نیا ُ‬


‫س فکر سے آیا نہیں جاتا‬‫باہر قف ِ‬
‫کس شخص کا دل جیتو گے اس شہر میں احمد‬
‫ُاس آنکھ کا کاجل تو چرایا نہیں جاتا‬
‫یاد آؤں گا ُاسے‪،‬آ کے منائے گا مجھے‬
‫ک تعلق سے ڈرائے گا مجھے‬
‫اور پھر تر ِ‬

‫آپ مسمار کرے گا وہ گھروندے اپنے‬


‫اور پھر خواب سہانے بھی دکھائے گا مجھے‬

‫مجھ کو سورج کی تمازت میں کرے گا تحلیل‬


‫اور مٹی سے کئی بار ُاگائے گا مجھے‬

‫اپنی خوشبو سے وہ مانگے گا حیا کی چادر‬


‫س بدن جب بھی بنائے گا مجھے‬‫زیب قرطا ِ‬
‫ب ایقان و عطا! عمر کے اس موڑ پہ کیا‬
‫ر ِ‬
‫راستے کرب کے ہموار دکھائے گا مجھے‬

‫میں کڑی دھوپ کا سایہ ہوں کڑے کوس کا ساتھ‬


‫بھولنا چاہے گا وہ‪ ،‬بھول نہ پائے گا مجھے‬

‫میری شہہ رگ پہ تمسخر کی چھری رکھے گا‬


‫گاہے پلکوں پہ تقدس سے سجائے گا مجھے‬

‫آنکھ لگ جائے گی جب ہجر کے انگاروں پر‬


‫نیند میں آ کے دبے پاؤں جگائے گا مجھے‬

‫تو بھی زنجیر پہن لے گا انا کی اک دن‬


‫میری غزلیں مرے لہجے میں سنائے گا مجھے‬

‫میں تو ہر بار مراسم کی بنا رکھتا ہوں‬


‫سوچتا ہوں کہ کبھی تو بھی منائے گا مجھے‬
‫جن سے ملتا ہو سراِغ ر ِہ منزل احمد‬
‫وہ لکیریں مرے ہاتھوں پہ دکھائے گا مجھے‬
‫س لب بڑھا کہ بدن ڈولنے لگا‬
‫وہ حب ِ‬
‫ت شہر کا در کھولنے لگا‬ ‫میں جب سکو ِ‬

‫اک خوف سا لگا مجھے خالی مکان سے‬


‫کل رات اپنے سائے سے دل ہولنے لگا‬

‫انگڑائی لے رہا ہو کوئی جیسے بام پر‬


‫خورشید روئے شرق پہ پر تولنے لگا‬

‫دوں گا کسے صدا کہ سماعت کو آ سکے‬


‫اے یاد ِ یار! زخم اگر بولنے لگا‬

‫ل اعتماد کنارے پہ آ گئے‬


‫ہم اہ ِ‬
‫گرداب میں سفینہ اگر ڈولنے لگا‬

‫روشن ہوئے نہ تھے ابھی آثار صبح کے‬


‫دل بانجھ جراتوں کی گرہ کھولنے لگا‬

‫احمد میں اپنے صدق پہ ثابت ثمر رہا‬


‫نفرت کا زہر قرب اگر گھولنے لگا‬
‫جب سے پیدا ہوا ہوں تنہا ہوں‬
‫خواب میں تتلیاں پکڑتا ہوں‬

‫قامت و قد میں ہوں پہاڑ مگر‬


‫اپنے اندر میں ریزہ ریزہ ہوں‬

‫چھاؤں کرتا ہوں شہر میں تقسیم‬


‫اپنے چہرے پہ دھوپ ملتا ہوں‬

‫بجھ گیا ہے الؤ جذبوں کا‬


‫سوچ کی رہگذر پہ تنہا ہوں‬

‫مرثیہ ہوں جو مصلحت برتو‬


‫دل سے چاہو تو ایک نغمہ ہوں‬

‫ت حاکم غلط کرنا‬‫بیع ِ‬


‫ت زندگی سمجھتا ہوں‬‫لعن ِ‬

‫ب تیرہ میں چمکتا ہے‬


‫جو ش ِ‬
‫میں وہ کردار کا ستارہ ہوں‬

‫مہرباں سائے یاد آتے ہیں‬


‫ہاڑ کی دوپہر میں جلتا ہوں‬
‫جانے والوں کے لکھ رہا ہوں کرم‬
‫آنے والوں کی سوچ پڑھتا ہوں‬

‫شمِع دل تو جل کے دیکھ مجھے‬


‫تیری منزل کا سیدھا رستہ ہوں‬

‫خلق عہد میں احمد‬‫ہر تہی ُ‬


‫غم زدوں کے لیے مسیحا ہوں‬
‫بے سبب کون سا سینہ ہے جو شق ہوتا ہے‬
‫بعض ایثار کا اک عمر قلق ہوتا ہے‬

‫لفظ اخلص کا دھڑکن میں چھپا رہتا ہے‬


‫ب اظہار تو اک سادہ ورق ہوتا ہے‬
‫ل ِ‬
‫آئنہ صاف خدوخال دکھا دیتا ہے‬
‫چہرہ غیروں کا نہیں اپنوں کا فق ہوتا ہے‬

‫میں تجھے کون سے لہجے میں ملمت بھیجوں‬


‫اچھے گھوڑے کو تو چابک بھی سبق ہوتا ہے‬

‫میرے ہر جرم ِ وفا سے ہے شناسا عالم‬


‫تیرے اخلص کا احساس ادق ہوتا ہے‬

‫جب بھی ماتھے پہ چمکتا ہے عرق بن کے لہو‬


‫گ شفق ہوتا ہے‬
‫مطلِع دل پہ عجب رن ِ‬

‫ق وفا سے احمد‬‫خل ِ‬
‫کون محروم رہا ُ‬
‫تیرا چہرہ تو مسرت کی رمق ہوتا ہے‬
‫ہمارے گھر کے آنگن میں گھٹا کس روز آئے گی‬
‫ت شام ِ ویرانی بتا‪ ،‬کس روز آئے گی‬
‫سکو ِ‬

‫بہت دن ہو گئے ہم پر کوئی پتھر نہیں آیا‬


‫ت شیشۂ دل کی صدا کس روز آئے گی‬ ‫شکس ِ‬

‫دکھوں کے جلتے سورج کی تمازت جان لیوا ہے‬


‫ُ‬
‫مرے حصے میں خوشیوں کی ردا کس روز آئے گی‬

‫س قید ِ لب سے دم گھٹنے لگا اب تو‬


‫مسلسل حب ِ‬
‫ن قفس! تازہ ہوا کس روز آئے گی‬ ‫اسیرا ِ‬
‫ب مفلس جھلملتا ہے‬‫فر ِ‬‫مری پلکوں پہ ظر ِ‬
‫مری ماں جب یہ کہتی ہے‪ ،‬دوا کس روز آئے گی‬

‫کہاں تک شانۂ ہستی یہ بارِ غم ُاٹھائے گا‬


‫تری دنیا میں جینے کی ادا کس روز آئے گی‬

‫بدل دیتی ہے جو احمد مقدر کی لکیریں تک‬


‫دعا کس روز آئے گی‬
‫مرے ہونٹوں پہ دل سے وہ ُ‬
‫سامنے والے گھر میں بجلی رات گئے تک جلتی ہے‬
‫شاید مجھ سے اب تک پگلی آس لگائے بیٹھی ہے‬
‫میری کسک‪ ،‬یہ میری ٹیسیں‪ ،‬آپ کو کیوں محسوس‬
‫ہوئیں؟‬
‫آپ کی آنکھوں میں یہ آنسو! دل تو میرا زخمی ہے‬
‫دنیا‬
‫ب منزل خواب ہے یہ ُ‬ ‫نفس نفس اک تازہ سرا ِ‬
‫نظر نظر قدموں سے خواہش سایہ بن کر لپٹی ہے‬
‫چپ مت سادھو‪ ،‬جھوٹ نہ بولو‪ ،‬اب تو اطمینان سے ہو‬
‫اب تو ہر دن سو جاتا ہے‪ ،‬اب تو ہر شب جاگتی ہے‬
‫دل ایسا معصوم پرندہ‪ ،‬اپنے پر پھیلئے کیا؟‬
‫اندیشوں کی کالی بلی‪ ،‬گھات لگائے بیٹھی ہے‬
‫آپ تو بس اک خاص ادا سے ’’اپنا‘‘ کہہ کر بچھڑ گئے‬
‫ش ہوا پر پھیلی ہے‬ ‫ُ‬
‫اب تک اس اک بات کی خوشبو دو ِ‬
‫کیسے اپنا دن گزرا‪ ،‬شب کیسے کٹی‪ ،‬کیا پوچھتے ہو‬
‫دن بھر شہر کی خاک ُاڑائی‪ ،‬رات آنکھوں میں کاٹی ہے‬
‫آپ کو دیکھا‪ ،‬دل نہ مانا‪ ،‬ٹھہر گیا‪ ،‬ناراض نہ ہوں‬
‫اتنی اچھی صورت اکثر‪ ،‬ہوش ُاڑا ہی دیتی ہے‬
‫میرے دیس کا چڑھتا سورج کیسے گرہن میں آیا ہے‬
‫دنیا تماشہ دیکھتی ہے‬‫اے فرزانو! کچھ تو بتاؤ‪ُ ،‬‬
‫آپ کی تخلیقات پڑھے اب ایک زمانہ بیت گیا‬
‫احمد صاحب! تازہ غزل کس الماری میں رکھی ہے‬
‫قصرِ سحر میں ہوں کہ کسی شب کدے میں ہوں‬
‫ب زندگی! میں عجب مخمصے میں ہوں‬ ‫آشو ِ‬
‫کیوں جرم ِ بے گناہی پہ دیتا ہے قید سخت‬
‫فردِ عمل تو دیکھ‪ ،‬میں کس قاعدے میں ہوں‬
‫تو میرے خال و خد کبھی پہچان کے تو دیکھ‬
‫آئینہ ساز! میں بھی ترے آئینے میں ہوں‬
‫دکھ ہو بعد میں‬‫اتنا نہ حد سے بڑھ کے تجھے ُ‬
‫میں عاقبت شناس ہوں اور حوصلے میں ہوں‬
‫س دہر‬‫ن حقیقت شنا ِ‬ ‫کچھ تو بتا اے ذہ ِ‬
‫حلقہ بگوش وہم میں کس سلسلے میں ہوں‬
‫وہ شورشیں تو دکھ کی لحد میں ُاتر گئیں‬
‫زندہ اگرچہ چشم یقیں دیکھنے میں ہوں‬
‫چاہے میں تیرے دکھ کی تلفی نہ کر سکوں‬
‫ک غم تو ترے سانحے میں ہوں‬ ‫لیکن شری ِ‬
‫آنکھوں میں َرت جگوں کی تھکن ہی انڈیل دے‬
‫تشنہ خلش نہ رکھ کہ ترے میکدے میں ہوں‬
‫کن لغزشوں پہ منظرِ عبرت نظر ہوا‬
‫گ رہ تماشہ‪ ،‬یہ کس سلسلے میں ہوں‬ ‫سن ِ‬
‫احمد یہ اور بات تھکن سے ہے چور جسم‬
‫ب سکوں چھاننے میں ہوں‬ ‫ک خوا ِ‬ ‫مصروف خا ِ‬
‫مری نظر نے خل میں دراڑ ڈالی ہے‬
‫سکوں کی گم شدہ تصویر پھر سے پا لی ہے‬
‫خود اپنی َاور بچھائے ہیں غم کے َانگارے‬
‫ت رنج سے میں نے نجات پا لی ہے‬ ‫سکو ِ‬
‫کدھر کو جائیں‪ ،‬کہاں ہم کریں تلش کہ اب‬
‫سکوں کی د ُھن میں بہت خاک چھان ڈالی ہے‬
‫میں کس یقیں پہ تحمل کو پائیدار کروں‬
‫مرا مزاج ازل ہی سے ل ابالی ہے‬
‫مجھے یقیں نہ دلؤ‪ ،‬میں جانتا ہوں‪ ،‬مگر‬
‫وفا کا لفظ تو عہدِ رواں میں گالی ہے‬
‫سراغ‬
‫مل نہ جب تری قربت کی روشنی کا ُ‬ ‫ِ‬
‫ب آرزو ُاجالی ہے‬
‫غموں کی ُلو سے ش ِ‬
‫دعا نہیں جلتا‬
‫کسی کے لب پہ چراِغ ُ‬
‫ہر ایک شخص کی جیسے زبان کالی ہے‬
‫تھا سخت ہم پہ بھی شب خوں پہ آبرو کی قسم‬
‫متاِع شیشہو نقدِ ُہنر بچا لی ہے‬
‫وفا تو پہلے ہی عنقا تھی شہر میں احمد‬
‫دکھوں کی بھی قحط سالی ہے‬ ‫سنا ہے اب تو ُ‬
‫ُ‬
‫چھپے گی سامنے آ کر یہ خستہ حالی کیا‬
‫ملے گا شہر میں ہم کو مکان خالی کیا‬

‫چھلک پڑے جو تمہیں دیکھ کر‪ ،‬بتاؤ مجھے‬


‫ان آنسوؤں نے مری آبرو بچا لی کیا؟‬

‫یہ دھڑکنیں ہیں علمت‪ ،‬چھپا ہوا تو نہیں‬


‫نظر کی اوٹ میں پیکر کوئی خیالی کیا‬

‫ت لب ٹوٹے‬
‫کسی طرح تو طلسم ِ سکو ِ‬
‫گ تبسم‪ ،‬یہ قحط سالی کیا‬
‫کوئی تو رن ِ‬

‫یہاں تو سب ہی پریشاں دکھائی دیتے ہیں‬


‫دکھوں کے شور میں ہوگا بدن سوالی کیا‬
‫ُ‬

‫جواں ہوئے تو کئی سال ہو گئے احمد‬


‫ہے اب بھی ُاس کی طبیعت میں ل ُابالی کیا؟‬
‫********‬
‫ٹائپنگ‪ : :‬نوید صادق‪ ،‬تدوین اور ای بک کی تشکیل‪ :‬اعجاز‬
‫عبید‬
‫اردو لئبریری ڈاٹ آرگ‪ ،‬کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ‬
‫کام اور کتب ڈاٹ ‪250‬فری ڈاٹ کام کی مشترکہ‬
‫پیشکش‬

Vous aimerez peut-être aussi