Académique Documents
Professionnel Documents
Culture Documents
ل احمد
سید آ ِ
با ِر حروف
ل احمد
سید آ ِ
پہل شعر:
توقع تھی دعائے زود اثر سے
ادھر سے میں چلوں گا ،وہ ادھر سے
۱۹۴۶ء
ف ہرست
بارِ حروف1.........................................................
بارِ حروف2.........................................................
آراء4..................................................................
حمد8.................................................................
نعت9.................................................................
غزلیں10.............................................................
ل گدازِ حیات دے دے گا 10...................... بدن کو غس ِ
وقت کے طشت میں رکھا ہوا پتھر ہوں میں 11...........
زرد جذبے ہوں تو کب نشوونما ملتی ہے 12................
شہر کے محتاط موسم سے خبر آئی تو ہے 14.............
ترے لہو میں ہے شامل مرے خلوص کی بو 15.............
اب حل مسائل کوئی سوچا نہیں جاتا 16...................
یاد آؤں گا ُاسے،آ کے منائے گا مجھے 17.....................
س لب بڑھا کہ بدن ڈولنے لگا 19....................... وہ حب ِ
جب سے پیدا ہوا ہوں تنہا ہوں 20.............................
بے سبب کون سا سینہ ہے جو شق ہوتا ہے 22..............
ہمارے گھر کے آنگن میں گھٹا کس روز آئے گی 23.......
سامنے والے گھر میں بجلی رات گئے تک جلتی ہے 24. . .
قصرِ سحر میں ہوں کہ کسی شب کدے میں ہوں 25....
مری نظر نے خل میں دراڑ ڈالی ہے 26......................
چھپے گی سامنے آ کر یہ خستہ حالی کیا 27................
آراء
’سب سے ہٹ کر بات کرنے وال ایک علیحدہ لغت لئے اپنی
ل احمد مجھے پہلی علیحدہ زبان میں شاعری کرنے وال آ ِ
ہی ملقات میں اچھا لگا کہ سچ بول رہا تھا۔وہ ادب کے
روایتی وڈیروں کے خلف تھا۔کبھی کسی کو چھپنے کے
لئے کچھ نہیں بھیجا۔ چھوٹی جگہ پر بیٹھ کر اچھی شاعری
ل احمد صاف دل لئے چپ چاپ یہاں سے چل کرنے وال آ ِ
گیا ۔‘‘
)منیر نیازی(
۱۹۸۰ء میں سترہ برس کے بعد بہاول پور جانا ہوا تو یہ
محسوس کر کے خوشگوار حیرت ہوئی کہ یہ ُپرسکون
شہر ُاس حد تک نہیں بدل تھا کہ جس حد تک اتنے عرصے
کے بعد آنے والوں کو اندیشہ ہو سکتا ہے۔ اس کے مانوس
خد و خال مجھے جوں کے توں نظر آئ ے ۔ سائیکل رکشا
بھی ُاس زمانے تک چل رہے ت ھے ۔ بیکانیری گیٹ اب فرید
گیٹ کہلنے لگا تھا مگر ُاس کی شکل و شباہت بھی جوں
کی توں تھی۔ ُاس کے برابر میں پان والے کی دکان بھی
ل احمد کھڑے موجود تھی۔ مجھے خیال آیا کہ یہاں سّید آ ِ
رہا کرتے تھے۔ دیکھتا کیا ہوں کہ وہ ُاس وقت بھی کھڑے
ہیں۔ ہاں یہ فرق ضرور آ گیا تھا کہ اب وہ سوٹ میں
ملبوس ت ھے ۔
پہلی بار جب ۱۹۶۲ء میں عربی کے لیکچرار کی حیثیت
سے میں گورنمنٹ انٹر کالج بہاول پور آیا تو جن لوگوں
سے بہت جلد مانوس ہو گیا اور جن کی صحبت میں لہور
دور وہ اداس شام و سحر اچھے گزر جاتے تھے ان سے ُ
ل احمد کو ایک نمایاں حیثیت حاصل تھی ۔ ُاس میں سید آ ِ
زمانے میں وہ مستقل ً گیروا کرتا اور چھوٹے پائنچوں کا
سفید پاجامہ پہنا کرتے تھے۔ بیکانیری گیٹ کے برابر میں
حبیب ہوٹل تھا اور اس سے ذرا آگے ایک سادہ سا نیا ہوٹل
ہمارے سامنے ہی شروع ہوا تھا ’’باغ و بہار ہوٹل‘‘ ۔ کالج
سے واپسی پر اور پھر شام کو ہم چند لیکچرار کھانا یہیں
کھاتے تھے۔ شہر کے جو ادیب و شاعر حضرات یہاں
ل احمد سب سے مستقل ً چائے پینے آتے تھے ان میں سید آ ِ
زیادہ باقاعدہ تھے۔ چنانچہ ُان سے ملقات روزانہ کا معمول
تھا۔ ’’باغ و بہار ہوٹل‘‘ میں شعر و سخن کی محفل بھی
خوب جمتی ۔ ہوٹل کے مالک ایک معمر بزرگ ت ھے ۔ نام یاد
نہیں۔ بڑے خلیق آدمی تھے۔ ہمیں دور سے آتا دیکھتے تو
گرم روٹیاں لگوانا شروع کر دیتے‘ اور ہماری طویل ادبی
نشستوں سے الجھن محسوس کرنے کے بجائے بہت خوش
ح دل ُ
ل احمد کے اس زمانے کے کچھ شعر لو ِ ہوتے۔ سید آ ِ
پر’ ُان کی آواز میں‘ اب تک نقش ہیں:
گ
ل احمد کا یہ تازہ مجموعہ ان کے مخصوص رن ِ سید آ ِ
ت احساس ،رومانیت ،روایتسخن کا آئینہ دار ہے ،جو شد ِ
اور جدت کے ایک دلکش امتزاج سے عبارت ہے ۔ چند شعر
ملحظہ ہوں
میری خاطر نہ تکلف کیجئے
میں تو کا نٹوں پہ بھی سو جاتا ہوں
****
حمد
میں تری ذات کے صدقے ،ترے قرباں مول
میرا ہر سانس ہے ،ہر پل ترا احساں مول
عمر تکتے درِ امیدِ سکوں بیت گئی
اور کب تک مجھے رکھے گا پریشاں ،مول
ت نظارہ کا آئینہ ہوں
آج تک حیر ِ
ایک لمحہ کو ہوا تھا کوئی مہماں ،مول
اب تو چہروں کی طرح روپ بدلتی ہے ہوا
اب تو ہوتا نہیں موسم کا بھی عرفاں ،مول
گل کر دیے جذبوں کے چراغ کون سے خوف نے ُ
مطمئن ایک بھی ملتا نہیں انساں ،مول
میرا گھر کیسے بچے گا کوئی تدبیر سجھا
ش دوراں ،مولدستکیں دینے لگی گرد ِ
کیسے سرسبز و ثمر بار ہو چاہت کا شجر
ت جاناں مول
ہو گیا خواب وہ خوش قام ِ
اب سکت ہی نہیں سوچوں کو کھنڈر کرنے کی
اب نہ کیجے کوئی تقسیم ِ گلستاں ،مول
چرا
آخرِ شب ہے ،مری ذات سے نظریں نہ ُ
اے غم ِ ہجر! ترے قد کے برابر ہوں میں
ل جاناں کا سفر
دشوار ہے اب منز ِکتنا ُ
ب بدن آبلہ پا ملتی ہے
خواہش قر ِ
بے نمو شاخوں سے پتوں کو شکایت کیا ہو
اب تو پیڑوں کو بھی مشکل سے غذا ملتی ہے
ق وفا سے احمدخل ِ
کون محروم رہا ُ
تیرا چہرہ تو مسرت کی رمق ہوتا ہے
ہمارے گھر کے آنگن میں گھٹا کس روز آئے گی
ت شام ِ ویرانی بتا ،کس روز آئے گی
سکو ِ
ت لب ٹوٹے
کسی طرح تو طلسم ِ سکو ِ
گ تبسم ،یہ قحط سالی کیا
کوئی تو رن ِ