Vous êtes sur la page 1sur 9

‫اقسام القرآن ‪،‬قرآن کا اعجاز بیان‬

‫م َر ْرنَا بِوَا ٍد‪َ .‬ف َقالَ‪" :‬أ َ ُّ‬ ‫ة‪َ .‬ف َ‬ ‫ةو ْ‬ ‫َك َ‬ ‫ّللا صلى هللا عليه وسلم بَ ْينَ م َّ‬ ‫عر ُ‬ ‫عبَّاسٍ‪َ ،‬قالَ‪ِ :‬‬
‫ي‬
‫ُ‬
‫م ِدي َن ِ‬
‫َال َ‬ ‫ل هِ‬ ‫َسو ِ‬ ‫س ْرنَا َم َ‬ ‫ن َ‬ ‫ن ا ْب ِ‬‫ع ِ‬ ‫•و َ‬
‫َ‬
‫ج َؤارٌ إِلى هللا‬ ‫َ‬
‫ه‪ .‬ل ُه ُ‬ ‫ُ‬
‫ه فِي أذنَ ْي ِ‬ ‫صبَ َع ْي ِ‬ ‫ضعا إِ ْ‬ ‫ً‬ ‫ى وَا ِ‬ ‫َ‬
‫وس‬ ‫ُ‬
‫م‬ ‫ى‬ ‫َ‬ ‫ل‬ ‫إ‬ ‫ُ‬
‫ر‬ ‫ُ‬ ‫ظ‬‫ن‬‫ْ‬ ‫َ‬ ‫أ‬ ‫ي‬ ‫ه‬ ‫ِ‬ ‫ن‬‫َ‬ ‫أ‬ ‫َ‬
‫"ك‬ ‫َ‪:‬‬
‫ل‬ ‫ا‬ ‫ق‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ف‬ ‫‪.‬‬ ‫ق‬ ‫ر‬
‫َ‬ ‫ز‬ ‫ْ‬ ‫َ‬ ‫األ‬ ‫ي‬‫د‬‫ِ‬ ‫َا‬
‫و‬ ‫وا‪:‬‬ ‫وَا ٍد ٰه َذا؟" َف َق ُ‬
‫ال‬
‫ٰ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬
‫ى أَ ْو لِف ٌ‬
‫َت‪.‬‬ ‫هر َ‬
‫ْش ٰ‬ ‫الوا‪َ :‬‬ ‫ة ٰه ِذ ِه" َق ُ‬ ‫ي ثَنِيَّ ٍ‬ ‫ة‪َ .‬ف َقالَ‪" :‬أ َ ُّ‬ ‫علَى ثَنِيَّ ٍ‬‫ح َّتى أَت َ ْينَا َ‬ ‫س ْرنَا َ‬ ‫م ِ‬ ‫"ث َّ‬ ‫َارا بِ ٰه َذا ْالوَا ِدي" َقالَ‪ُ :‬‬ ‫ة‪ .‬م ًّ‬ ‫بِال َّت ْل ِبيَ ِ‬
‫َارا بِ ٰه َذا ْالوَا ِدي‬
‫َة‪ .‬م ًّ‬ ‫خ ْلب ٌ‬ ‫خطَا ُ‬ ‫جبَّ ُة ُ‬ ‫علَ ْي ِ‬ ‫َ‬
‫"كأنِ هي أ ْنظُ ُر إِلَى ُيونُسَ َ‬ ‫َ‬
‫يف ُ‬ ‫ه لِ ٌ‬ ‫اقتِ ِ‬ ‫م نَ َ‬ ‫وف‪ِ .‬‬ ‫ص ٍ‬ ‫ه ُ‬ ‫مرَاءَ‪َ .‬‬ ‫ح ْ‬
‫ة َ‬ ‫ى نَ َ‬
‫اق ٍ‬ ‫عل َ ٰ‬ ‫َف َقالَ‪َ :‬‬
‫ُملَ ِب هياً‪".‬‬

‫شرح حديث قلوب العباد بين اصبعين من اصابع الرحمن‬

‫الجواب‪ :‬الحديث واضح‪ ،‬يقول ﷺ‪ :‬إن القلوب بين إصبعين من أصابعه يقلبها كيف يشاء‪ ،‬فالمعنى أن هللا‪.‬‬

‫رابط الموضوع‪: https://www.alukah.net/sharia/0/111970/#ixzz5foLnTlAB‬‬

‫غالب أحوا ِّل ِّه ؛ وعلى هذا ‪:‬‬ ‫َ‬ ‫وقيل ‪ :‬كان بالمدينة ؛ ويؤيِّده أن كونَه بالمدينة كان‬
‫اق اليمن ‪ ،‬أو إلى القبائل اليمنية الذين َوفَدوا على أبي‬ ‫فتكون اإلشارة إلى سب ِّ‬
‫الشام وأوائ ِّل العراق ؛ وإليهم اإلشارة بقوله صلى هللا‬ ‫ِّ‬ ‫بكر رضى هللا عنه لفتحِّ‬
‫من ِّم ْن قِّبَ ِّل اليَ َم ِّن ‪ ،‬أي ‪ :‬نَص َْره في حياتِّ ِّه‬
‫س الر ْح ِّ‬‫عليه وسلم ‪ :‬إنِّي أل َ ِّجد نَفَ َ‬
‫سه عنه فيها ‪ ،‬وبعد مماته ‪ ،‬وهللا تعالى أعلم ‪ .‬اهـ ‪.‬‬ ‫وتنفي َ‬
‫(نفس هللا يأتي من اليمن )‬

‫صنف ادب ہونے کی بھی‬


‫ِ‬ ‫یہ قسمیں فصاحت وبالغت کا شاہکار ہونے کے ساتھ خدائی‬

‫بین دلیل ہیں ‪ ،‬قرآن کی قسموں میں ادب کے مختلف معیار ‪ ،‬موضوعات کی وسعت اور‬

‫معانی کی ندرت تالش کرنا چنداں مشکل نہیں‪ ،‬یہاں ایک مثال پیش ہے ‪ ،‬قرآن کہتا ہے۔‬

‫بلی وربی لتاتینکم عالم الغیب (سورہ سبا ‪)۳‬‬


‫قل ٰ‬

‫منکرین قیامت جس غرور کے ساتھ قیامت کا انکار کرتے ہیں کہ وہ ہرگز نہیں آئے‬

‫گی‪ ،‬اسی طنطقہ کے ساتھ پیغمبر ﷺ کی زبان سے بقید قسم جواب دلوایا گیا کہ ان کو‬

‫سنا دو ہاں میرے رب کی قسم! وہ تم پر ضرور آکے رہے گی‪ ،‬یہاں رب کی قسم کھانا‬

‫قرآن کی غیر معمولی فصاحت کا ثبوت ہے‪ ،‬یعنی میرے رب کی قسم جو تمام غیب سے‬

‫واقف ہے‪ ،‬جس سے آسمانوں اور زمین میں‪ ،‬ذرہ کے برابر بھی کوئی چیز مخفی نہیں‬
‫علم ٰالہی کی وسعت کا بیان‬
‫بلکہ ہر چیز ایک واضح رجسٹر میں درج ہے‪ ،‬اس آیت میں ِ‬

‫بھی نہایت بامعنی انداز سے منکرین کی تہدید کے مقصد سے کیا گیا ہے کہ وہ چوکنے‬

‫ہوجائیں۔ اس ڈھٹائی سے جو وہ قیامت کے انکا رمیں کررہے ہیں۔اور یاد رکھیں وہ نہ‬

‫صرف آئے گی بلکہ ہر ایک کو قول وعمل کا‪ ،‬خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا‪ ،‬حساب بھی دینا‬

‫ہے‪ ،‬ساتھ ہی اس میں ایک مغالطہ کا ازالہ بھی ہے‪ ،‬وہ یہ کہ منکرین کے نزدیک قیامت‬

‫کے نہ آنے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ سمجھتے تھے اتنی وسیع دنیا کے ایک‬

‫ایک شخص کے ہر ایک قول وفعل کا علم کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ سب کا حساب کرنے‬

‫بیٹھے گا۔‘‘‬

‫یہی مضمون قرآن مجید میں مختلف ادبی پیرایوں کے ساتھ اعراف ‪ٰ ،۱۸۷‬ط ٰہ ‪ ،۱۵‬لقمان‬

‫‪ ،۳۴‬احزاب ‪ ،۶۳‬ملک ‪ ۲۵‬تا ‪ ۲۶‬اور نازعات ‪ ۴۲‬تا ‪ ۴۴‬میں بھی بیان ہوا ہے لیکن‬

‫سورہ سبا کی مذکورہ آیت ایک انفرادی شان کی مالک ہے جس کو اہل نظر سمجھ‬

‫سکتے ہیں۔‬

‫اعلی مثال قرآن‬


‫ٰ‬ ‫قسم میں قول کی پختگی اور تاکید کی جو ضرورت پیش آتی ہے اس کی‬

‫حکیم کی قسمیں ہیں‪ ،‬مثال کے طور پر سورۃ الطارق کی آیت ‪ ۱۱‬تا ‪ ۱۴‬مالحظہ ہو‬

‫والسماء ذات الرجع ‪ ،‬واالرض ذات الصدع‪ ،‬انہ لقول فصل‪ ،‬وماھو بالھزل یعنی اور قسم‬

‫ہے آسمان پرنگار اور زمین پر شگاف کی کہ یہ دوٹوک بات ہے اور ہنسی مذاق نہیں‬

‫ہے۔‬

‫قرآنی قسموں کی دوسری خصوصیت ان کا طرز اظہار یعنی انشاء ہے جس کی تردید‬

‫نفس‬
‫نہیں کی جاسکتی کیونکہ اکثر جگہ وہ خبر کی صورت میں سامنے آتی ہیں۔ لہذا ِ‬

‫قسم کا انکار کرنا آسان نہیں ہوتا جیسا کہ والقرآن المجید‪ ،‬والیوم الموعود‪ ،‬فالمقسمٰ ت‬
‫امرا‪ ،‬فاالفارقات فرقا‪ ،‬والصافات صفا ‪ ،‬ان جملوں کی اگر تشریح کی جائے تو ہر جملہ‬

‫فراہی نے تحریر کیا ہے‪:‬‬


‫ؒ‬ ‫خبر کی شکل میں ڈھل جائے گا جیسا کہ موالنا‬

‫’’والصافات صفا کا مطلب ہوگا مالئکہ غالموں کی طرح صف بستہ ہیں‪ ،‬فالمقسمٰ ت امرا‬

‫اور فالفارقات فرقا کا مطلب ہوگا کہ ہوائیں خدا کے حکم سے فرق وامتیاز کرتی ہیں۔‬

‫والقرآن المجید کا مطلب ہوگا کہ یہ قرآن برتر کالم ہے‪ ،‬والیوم الموعود کا مطلب ہوگا کہ‬

‫ان کے محاسبے کے لئے ایک روز مقرر ہے‪ ،‬پس یہ گویا خبریں ہیں جو صافات اور‬

‫فارقات وغیرہ کے اندر چھپادی گئی ہیں اور نیز چونکہ قسم کا اسلوب ہے اس لئے ان‬

‫اشیاء کا شہادت اور دلیل ہونا مزید برآں ہے اور اس پہلو سے گویا اس میں دوہری‬

‫خبریں چھپی ہوئی ہیں۔‬

‫یہاں یہ نکتہ بھی قابل لحاظ ہے کہ جہاں کہیں یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ مخاطب ہوشیار‬

‫ہوکر انکار کا ترکش سنبھالے گا وہاں یا تو خطاب کا رخ آنحضرت ﷺ کی طرف پھیر‬

‫دیا جاتا ہے‪ ،‬مثالً ٰیسن والقرآن الحکیم‪ ،‬انک لمن المرسلین ٰ(یسن ‪۱‬۔‪( )۲‬قرآن حکیم کی‬

‫قسم تم خدا کے فرستادوں میں سے ہو) یا جواب قسم کو‪ ،‬جس کا جملہ خبریہ کی شکل‬

‫میں ہونا ناگزیر ہے‪ ،‬حذف کردیا جاتا ہے اور صرف قسم بہ پراکتفا کرکے اس کے بعد‬

‫کوئی ایسی بات الئی جاتی ہے جو محذوف پر دلیل ہو‪ ،‬تاکہ مخاطب کو اتنی فرصت ہی‬

‫نہ ملے کہ وہ انشاء کو خبر کی صورت میں ڈھال کر اس کے تردید وانکار کے لئے‬

‫آمادہ ہو۔ اس وقت وہ قسم کے بعد کی بات سننے کے لئے کان لگاتا ہے تاکہ اس کی‬

‫تردید کرسکے لیکن دفعتا ً اس کے سامنے ایک ایسی بات آجاتی ہے جس کا مقصود اس‬

‫استدالل کو قوت پہونچانا ہوتا ہے جو سابق کالم میں پیش نظر تھا‪ ،‬مثالً‪:‬‬

‫ص‪ ،‬والقرآن ذی الذکر بل الذین کفروا فی عزۃ وشقاق (ص ‪۱‬۔‪( )۲‬پرنصیحت قرآن کی‬
‫قسم‪ ،‬بلکہ کافر گھمنڈ اور عناد میں مبتالء ہیں) اس آیت میں جملہ انشائیہ پر اکتفا کیا‪،‬‬

‫جملہ خبر یہ نہیں الئے۔ قسم کے ساتھ جو صفت مذکور تھی گویا وہی خبر کی قائم مقام‬

‫ہوگئی یعنی پوری بات یوں ہوئی کہ قرآن مجید شاہد ہے کہ وہ ان کے لئے یاد دہانی اور‬

‫نصیحت ہے۔‘‘ اس کے بعد ان کے بعض ایسے خصائل کا ذکر کیا گیا جس سے ان کو‬

‫انکار نہیں تھا بلکہ ان پر فخر کرتے تھے اور واضح کردیا کہ ان کا یہ اعراض محض‬

‫حمیت جاہلیت اور عناد کا نتیجہ ہے۔‬

‫اسی سے مشابہ سورۂ ق کی قسم ہے ۔ ق والقرآن المجید‪ ،‬بل عجبوا ان جاء ھم منذر منھم‬

‫فقال الکافرون ھذا شئی عجیب (‪۱‬۔‪( )۲‬قرآن بزرگ کی قسم‪ ،‬بلکہ ان کو تعجب ہے کہ ان‬

‫کے پاس انہی میں سے ایک ہوشیار کرنے واال آیا۔ پس کافروں نے کہا یہ تو ایک‬

‫تعالی کی طرف سے نہایت کھلے‬


‫ٰ‬ ‫عجیب چیز ہے) یعنی قرآن مجید شاہد ہے کہ وہ ہللا‬

‫لفظوں میں بعث کی خبر دینے واال ہے لیکن وہ صرف اس وجہ سے اس کے منکر ہیں‬

‫کہ ان کی نظر میں یہ بات عجیب ہے کہ اس کی خبر دینے واال انہیں کے اندر کا ایک‬

‫آدمی ہے۔‬

‫ہاں اگر قسم ایسی ہے کہ مخاطب کو اس سے انکار نہیں ہے تو ایسے مواقع پر جواب‬

‫ٰ‬
‫جعلنہ قرآنا ً عربیا لعلکم‬ ‫قسم کو حذف نہیں کیا گیا ہے‪ ،‬مثالً ‪ :‬حم والکتاب المبین‪ ،‬انا‬

‫تعقلون (الزخرف‪۱‬۔‪( )۳‬شاہد ہے واضح کتاب‪ ،‬بالشبہ ہم نے بنایا اس کو عربی قرآن تاکہ‬

‫تم لوگ سمجھو) اس میں قسم کے ساتھ واضح اور کھلی ہوئی ہونے کا ذکر کیاگیا ہے‪،‬‬

‫قرآن عربی ہونے کا ذکر ہے اور یہ دونوں باتیں ایسی ہیں جن‬
‫ِ‬ ‫اور جواب میں اس کے‬

‫سے کسی کو انکار نہیں تھا۔ پھر لطف یہ ہے کہ یہاں قرآن مجید کے منزل من ہللا ہونے‬

‫کو عالحدہ دعوے کی شکل میں نہیں پیش کیاگیا ۔ کیونکہ یہ بات خود کالم کے اندر‬
‫مضمر ہے جبکہ اس نے کالم کو اپنی طرف منسوب فرمایا‪ ،‬اس کا فائدہ یہ ہے کہ انکار‬

‫کی طرف مخاطب کو توجہ نہیں ہوسکتی۔‬

‫’’اس اسلوب کی تیسری خوبی استدالل کے لئے اس کی موزونیت ہے۔ اس اسلوب میں‬

‫اختصار ہوتا ہے اور جب الفاظ کم ہوں تو مفہوم تمام حجابات سے مجرد ہوکر سہولت‬

‫سے سامنے آجاتا ہے اور اس سے مضمون کی تاثیر اور زور میں اضافہ ہوجاتا ہے ‘‘‬

‫(اقسام القرآن‘‘ ‪ )۱۰۲‬قرآن کے ادبی مرتبہ کی جستہ جستہ کچھ اور مثالیں پیش ہیں۔‬

‫نکتم شہادۃ ہللا (سورہ المائدہ ‪)۱۰۶‬‬

‫یعنی جس بات کے بیان کرنے پر ہم ہللا کی طرف سے مامور ہیں‪ ،‬عظمت ٰالہی کے‬

‫ت شہادت کو شہادت ہللا سے تعبیر کرکے اس کی کتنی اہمیت بڑھا‬


‫استحضار اور خشی ِ‬

‫دی گئی۔‬

‫لعمرک (سورہ الحجرات ‪)۷۲‬‬

‫’’عمر اور عمر عربی میں ہم معنی ہیں لیکن قسم کھانے کے موقعہ پر عمر ہی آتا ہے‪،‬‬

‫یہاں ۔ل قسم کا ہے عربی اسلوب بالغت میں قسم ایک ادبی صنعت وفنکاری ہے اور‬

‫ب موقع آزادی سے کام لیتا ہے‪ ،‬یہی وجہ ہے کہ قرآن‬


‫بہترین ادیب وشاعر اس سے حس ِ‬

‫ق عرب پرگراں نہیں گزریں اور جو اہل زبان مخالفت میں غرق اور‬
‫مجید کی قسمیں مذا ِ‬

‫اعتراض ونکتہ چینی کے لئے تلے ہوئے بیٹھے تھے ان میں سے کسی نے یہ نہ پوچھا‬

‫کہ خدا کے کال م میں یہ مخلوقات کی قسمیں کیسی؟ اور قسموں کے فلسفے یا ان کی‬

‫ت عقلی پر توجہ صرف عجمی اور ہندی اہل علم نے شروع کی۔‬
‫توجہا ِ‬

‫تاہلل (سورہ النحل ‪)۵۶‬‬

‫’’موقع تحدید پر صیغہ ایک طرف تو غائب سے مخاطب ہوا اور دوسری طرف متکلم‬
‫زور تاکید کے موقعہ پر قسم کا النا عربی اسلوب بیان کی‬
‫سے‪ ،‬غائب کا ہوگیا ’تاہلل‘ ِ‬

‫ایک صنعت ہے ’تاہلل‘ حرف قسم کا ’ت‘ کے ساتھ النا لفظ ہللا ہی کے ساتھ مخصوص‬

‫ہے لتسئلن یہاں باز پرس سے مواخذہ حشر مراد ہے۔‬

‫سورۃ الزخرف‪ ،‬سورۃ ق اور سورۃ طور وغیرہ میں ’و‘ کا استعمال قسم کے مفہوم میں‬

‫ہوا ہے اور قسم عربی میں شہادت کے لئے آتی ہے جیساکہ ذیل کی عبادت سے ظاہر‬

‫ہوتا ہے‪:‬‬

‫’’مطلب یہ ہے کہ یہ پرحکمت قرآن جو تم لوگوں کو سنا رہے ہو خود اس بات کی‬

‫شہادت کیلئے کافی ہے کہ تم رسو ل کے زمرے سے تعلق رکھنے والے ہو‪ ،‬رسول کے‬

‫سوا کوئی دوسرا اس طرح حکیمانہ اور معجزانہ کالم پیش کرنے پر قادر نہیں ہے‪ ،‬اس‬

‫سے معلوم ہوا کہ قرآن کے اعجاز میں اصل دخل اس کی حکمت اور اس کے فلسفے‬

‫کو ہے ‪ ،‬اس کی زبان کی بالغت وجزالت مزید براں ہے۔‬

‫والکتاب المبین(سورۃ الزخرف ‪)۲‬‬

‫قرآن بالکل ایک واضح کتاب بلحاظ اپنے پیش کئے ہوئے مہمات عقائد کے اور بلحاظ‬

‫واولی کے بھی ’و‘ کوکالم عرب میں تاکید اور زور کالم کے موقع‬
‫ٰ‬ ‫اپنے احکام اساسی‬

‫پر قسم میں النے کا دستور عام ہے اور استشہاد کا پہلو جو قسم میں ہوتا ہے وہ اس‬

‫خاص موقع پر عیاں اور ظاہر ہے یعنی قرآن پر غور کرنے سے خود اس کے مضامین‬

‫کا اعجاز ظاہر ہورہا ہے‪ ،‬یہ عربی اسلوب بیان کی فصاحت ہے کہ جب عرب ادیب‪،‬‬

‫خطیب اورشاعر کو اپنی شجاعت ودلیری کا اظہار مقصود ہوتا تو بجائے اس کے کہ‬

‫اردو محاورہ کے مطابق یہ کہے کہ میرے کارناموں پر میری تلوار گواہ ہے وہ یہ کہے‬

‫گا کہ مجھے تلوار کی قسم۔‬


‫قرآن کی قسم کھاکر اس کی صفت مبین بیان کر نا حقیقت میں یہ کہنا ہے کہ قرآن حکیم‬

‫اپنے ہر دعوے پر خود حجت ہے اور کسی خارجی دلیل کا محتاج نہیں ہے جو لوگ اس‬

‫کی تکذیب کے بہانے ڈھونڈ رہے ہیں وہ حقیقت میں آفتاب پر خاک ڈالنے کی کوشش‬

‫کررہے ہیں‪ ،‬ایک مختصر سی آیت میں معنی کا یہ سمندر قرآن کی فصاحت وبالغت کا‬

‫خود گواہ ہے۔‬

‫والقرآن المجید (سورہ ق آیت ‪ )۲‬عربی اسلوب بیان میں قسم کا مفہوم تاکید کا ہوتا ہے‬

‫اور جواب قسم یعنی قسم کے بعد کا مضمون اکثر بغیر کسی تصریح کے محض سیاق‬

‫وسباق سے سمجھ لیا جاتا ہے قسموں کی بحث کا تعلق تمام تر اسلوب بیان اوربالغت‬

‫سے ہے یہاں قرآن مجید کی قسم کا مفہوم صرف اس قدر ہے کہ یہ کتاب اپنے مضامین‬

‫کی بے نظیر بلندی اور معنویت کے لحاظ سے اپنی صداقت اور آپ ﷺ کی رسالت‬

‫پرخود گواہ ہے ‪ ،‬المجید ’’یعنی بزرگی اور شرف واال قرآن‪ ،‬آج دنیا کی کون سی کتاب‬

‫اپنی معنویت اور بلندی کے لحاظ سے اس کے ہمسر کی ہے۔ کس صحیفہ مذہب کو اس‬

‫کی جامعیت وہمہ گیری کے مقابلہ میں الیا جاسکتا ہے ۔‬

‫والطور (سورہ طور آیت ایک) یعنی پہاڑ گواہ ہیں کہ جو آج اپنی جگہ پر اتنے مضبوط‬

‫ومستحکم نظر آرہے ہیں‪ ،‬لغت میں طور کا مفہوم عام پہاڑ ہے یعنی مطلق پہاڑ یہی‬

‫سیاق سے زیادہ مناسب ہے۔ والطور سے لیکر والبحر تک واؤ پانچ بارآیا ہے ان میں‬

‫اعلی‬
‫ٰ‬ ‫سے واؤ اول قسم کا ہے اور باقی واؤ عطف کے ہیں اور یہ قرآنی انشاء کی ایک‬

‫مثال ہے۔‬

‫سجی (سورۃ الضحٰ ی آیت ‪۱‬۔‪)۲‬‬


‫ٰ‬ ‫والضحی والیل اذا‬
‫ٰ‬

‫دیکھئے ماہر نقاش کے برش آفتاب کی روشنی اور رات کی تاریکی کی کس مہارت‬
‫کے ساتھ بیک وقت منظر کشی کردی ہے اس ملی جلی فضا کا صحیح ادراک ایک‬

‫مصور کی آنکھ سے ہی کیا جاسکتا ہے۔‬

‫والعصر(سورۃ العصر ‪)۱:‬‬

‫محض وقت کا مفہوم ادا کرنے کے لئے عربی زبان میں زمان‪ ،‬دہر وغیرہ اور لفظ بھی‬

‫تھے لیکن گزرتے ہوئے زمانہ کی طرف خاص اشارہ کرنے واال یہی لفظ عصر ہے۔‬

‫یعنی قسم زمانہ کی جس میں انسان کی عمر بھی داخل ہے اسے تحصیل علم وکماالت‬

‫کے لئے ایک متاع گراں مایہ یہ سمجھنا چاہئے۔ اگر یہ غفلت وبھول میں گزر گئی تو‬

‫اس سے بڑھ کر انسان کا کوئی دوسرا نقصان نہیں ہوسکتا۔‬

‫قرآن حکیم کی جن سورتوں کے شروع میں قسمیں آئی ہیں ان کی بھی ادبی اہمیت ہے‪،‬‬

‫بلکہ یہ کہا جائے تو صحیح ہوگا کہ ان قسموں نے مذکورہ سورتوں کے حسن اور بیان‬

‫کی ندرت میں اضافہ کرکے ان کو ایک عنوان جمال بخش دیا ہے۔ جیسا کہ ’’اقسام‬

‫القرآن‘‘ کی وضاحت سے اندازہ ہوتا ہے۔‬

‫سورتوں کے اوائل میں یہ قسمیں اس طرح چمکتی ہیں جس طرح انگشتری میں نگینہ‪،‬‬

‫بعض جگہ سورتوں کے بیچ میں بھی قسمیں آئی ہیں لیکن کم‪ ،‬مگر جہاں کہیں آئی ہیں‬

‫ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے مطلع قصیدے کے بیچ میں آگیا ہو۔ قسم کا مقصود زیبائش‬

‫کالم یقیناًنہیں ہے لیکن جب یہ آغاز کالم کے لئے موزوں سمجھی گئی تو اس کے لئے‬

‫وہ تمام لوازم تصویر اختیار کرلئے گئے جو اگر دیباچہ کے مضمون میں مصور‬

‫ہوسکیں تو دلوں کو مبہوت اور نگاہوں کو خیرہ کردیں۔‬

‫آخر میں صرف یہ عرض کرنا ہے کہ قسم کے لئے ’و‘ کا استعمال ہو یا ’ل‘ کا یا لفظ‬

‫قسم کا بظاہر اس کا یہ اندازہ نہایت سادہ ہے لیکن کائنات کی حقیقت کو اپنے اندر‬
‫سموئے ہوئے ہے‪ ،‬معمولی سا نظر آنے واال یہ جملہ عقل انسانی کو ہالکر رکھ دینے‬

‫والے اسلو ب کا مالک ہے۔ ایک ایسا اسلوب جس نے بڑے بڑے علوم کے دروازے‬

‫کھول دیئے ہیں اور کالم کے ایسے اچھوتے نمونے چھوڑے ہیں کہ صدیوں سے لوگ‬

‫اس پر سردھن رہے ہیں لیکن نئے نئے معنی کی تالش کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔‬

‫قرآن حکیم میں مذکورہ قسموں کا ایک پہلو اور قابل غور ہے جس کی طرف عالمہ‬

‫سیوی نے توجہ مبذول کرائی ہے وہ فرماتے ہیں ‪:‬‬

‫تعالی نے کھائی ہیں وہ چیزوں یعنی مخلوقات کی عظمت‬


‫ٰ‬ ‫قرآن کی ساری قسمیں جو ہللا‬

‫کے لئے نہیں بلکہ وہ اس لئے ہیں کہ ان کی گہرائی‪ ،‬خوبی اور کیفیت سے انسان‬

‫متعارف ہو‪ ،‬ان کو سمجھے اور یہ حقیقت اس کے پیش نظر رہے کہ ان کو بنانے والے‬

‫(مالک حقیقی) کی ذات کتنی عظیم ہوگی۔ (عالمہ السیوطی ’’االتفاق فی العلو م‬

‫القرآن‘‘‪)۱۴۱/۲‬‬

‫بہر حال قرآن مجید خداوند عالم کی ایک ایسی کتاب ہے جس کی وسعت کا احاطہ کرنا‬

‫اور اس کے انداز بیان کی گہرائی تک پہونچنا انسان کے بس کی بات نہیں‪ ،‬صرف قرآن‬

‫کی قسموں کے ادبی اعجاز یا اس کے اسلوب بیان پر روشنی ڈالی جائے تو اس کے‬

‫لئے صفحات کے صفحات درکار ہوں گے اور گفتگو پھر بھی ناتمام رہے گی کیونکہ‬

‫جس ندرت ادا‪ ،‬حسن تعبیر اور زور بیان کا نام ادب ہے وہ قرآن اور اس کی قسموں میں‬

‫رچا بسا ہوا ہے۔‬

Vous aimerez peut-être aussi