Académique Documents
Professionnel Documents
Culture Documents
م َر ْرنَا بِوَا ٍدَ .ف َقالَ" :أ َ ُّ ةَ .ف َ ةو ْ َك َ ّللا صلى هللا عليه وسلم بَ ْينَ م َّ عر ُ عبَّاسٍَ ،قالَِ :
ي
ُ
م ِدي َن ِ
َال َ ل هِ َسو ِ س ْرنَا َم َ ن َ ن ا ْب ِع ِ •و َ
َ
ج َؤارٌ إِلى هللا َ
ه .ل ُه ُ ُ
ه فِي أذنَ ْي ِ صبَ َع ْي ِ ضعا إِ ْ ً ى وَا ِ َ
وس ُ
م ى َ ل إ ُ
ر ُ ظنْ َ أ ي ه ِ نَ أ َ
"ك َ:
ل ا ق َ َ
ف . ق ر
َ ز ْ َ األ يدِ َا
و وا: وَا ٍد ٰه َذا؟" َف َق ُ
ال
ٰ ِ ِ
ى أَ ْو لِف ٌ
َت. هر َ
ْش ٰ الواَ : ة ٰه ِذ ِه" َق ُ ي ثَنِيَّ ٍ ةَ .ف َقالَ" :أ َ ُّ علَى ثَنِيَّ ٍح َّتى أَت َ ْينَا َ س ْرنَا َ م ِ "ث َّ َارا بِ ٰه َذا ْالوَا ِدي" َقالَُ : ة .م ًّ بِال َّت ْل ِبيَ ِ
َارا بِ ٰه َذا ْالوَا ِدي
َة .م ًّ خ ْلب ٌ خطَا ُ جبَّ ُة ُ علَ ْي ِ َ
"كأنِ هي أ ْنظُ ُر إِلَى ُيونُسَ َ َ
يف ُ ه لِ ٌ اقتِ ِ م نَ َ وفِ . ص ٍ ه ُ مرَاءََ . ح ْ
ة َ ى نَ َ
اق ٍ عل َ ٰ َف َقالََ :
ُملَ ِب هياً".
الجواب :الحديث واضح ،يقول ﷺ :إن القلوب بين إصبعين من أصابعه يقلبها كيف يشاء ،فالمعنى أن هللا.
غالب أحوا ِّل ِّه ؛ وعلى هذا : َ وقيل :كان بالمدينة ؛ ويؤيِّده أن كونَه بالمدينة كان
اق اليمن ،أو إلى القبائل اليمنية الذين َوفَدوا على أبي فتكون اإلشارة إلى سب ِّ
الشام وأوائ ِّل العراق ؛ وإليهم اإلشارة بقوله صلى هللا ِّ بكر رضى هللا عنه لفتحِّ
من ِّم ْن قِّبَ ِّل اليَ َم ِّن ،أي :نَص َْره في حياتِّ ِّه
س الر ْح ِّعليه وسلم :إنِّي أل َ ِّجد نَفَ َ
سه عنه فيها ،وبعد مماته ،وهللا تعالى أعلم .اهـ . وتنفي َ
(نفس هللا يأتي من اليمن )
بین دلیل ہیں ،قرآن کی قسموں میں ادب کے مختلف معیار ،موضوعات کی وسعت اور
معانی کی ندرت تالش کرنا چنداں مشکل نہیں ،یہاں ایک مثال پیش ہے ،قرآن کہتا ہے۔
منکرین قیامت جس غرور کے ساتھ قیامت کا انکار کرتے ہیں کہ وہ ہرگز نہیں آئے
گی ،اسی طنطقہ کے ساتھ پیغمبر ﷺ کی زبان سے بقید قسم جواب دلوایا گیا کہ ان کو
سنا دو ہاں میرے رب کی قسم! وہ تم پر ضرور آکے رہے گی ،یہاں رب کی قسم کھانا
قرآن کی غیر معمولی فصاحت کا ثبوت ہے ،یعنی میرے رب کی قسم جو تمام غیب سے
واقف ہے ،جس سے آسمانوں اور زمین میں ،ذرہ کے برابر بھی کوئی چیز مخفی نہیں
علم ٰالہی کی وسعت کا بیان
بلکہ ہر چیز ایک واضح رجسٹر میں درج ہے ،اس آیت میں ِ
بھی نہایت بامعنی انداز سے منکرین کی تہدید کے مقصد سے کیا گیا ہے کہ وہ چوکنے
ہوجائیں۔ اس ڈھٹائی سے جو وہ قیامت کے انکا رمیں کررہے ہیں۔اور یاد رکھیں وہ نہ
صرف آئے گی بلکہ ہر ایک کو قول وعمل کا ،خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا ،حساب بھی دینا
ہے ،ساتھ ہی اس میں ایک مغالطہ کا ازالہ بھی ہے ،وہ یہ کہ منکرین کے نزدیک قیامت
کے نہ آنے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ سمجھتے تھے اتنی وسیع دنیا کے ایک
ایک شخص کے ہر ایک قول وفعل کا علم کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ سب کا حساب کرنے
بیٹھے گا۔‘‘
یہی مضمون قرآن مجید میں مختلف ادبی پیرایوں کے ساتھ اعراف ٰ ،۱۸۷ط ٰہ ،۱۵لقمان
،۳۴احزاب ،۶۳ملک ۲۵تا ۲۶اور نازعات ۴۲تا ۴۴میں بھی بیان ہوا ہے لیکن
سورہ سبا کی مذکورہ آیت ایک انفرادی شان کی مالک ہے جس کو اہل نظر سمجھ
سکتے ہیں۔
حکیم کی قسمیں ہیں ،مثال کے طور پر سورۃ الطارق کی آیت ۱۱تا ۱۴مالحظہ ہو
والسماء ذات الرجع ،واالرض ذات الصدع ،انہ لقول فصل ،وماھو بالھزل یعنی اور قسم
ہے آسمان پرنگار اور زمین پر شگاف کی کہ یہ دوٹوک بات ہے اور ہنسی مذاق نہیں
ہے۔
نفس
نہیں کی جاسکتی کیونکہ اکثر جگہ وہ خبر کی صورت میں سامنے آتی ہیں۔ لہذا ِ
قسم کا انکار کرنا آسان نہیں ہوتا جیسا کہ والقرآن المجید ،والیوم الموعود ،فالمقسمٰ ت
امرا ،فاالفارقات فرقا ،والصافات صفا ،ان جملوں کی اگر تشریح کی جائے تو ہر جملہ
’’والصافات صفا کا مطلب ہوگا مالئکہ غالموں کی طرح صف بستہ ہیں ،فالمقسمٰ ت امرا
اور فالفارقات فرقا کا مطلب ہوگا کہ ہوائیں خدا کے حکم سے فرق وامتیاز کرتی ہیں۔
والقرآن المجید کا مطلب ہوگا کہ یہ قرآن برتر کالم ہے ،والیوم الموعود کا مطلب ہوگا کہ
ان کے محاسبے کے لئے ایک روز مقرر ہے ،پس یہ گویا خبریں ہیں جو صافات اور
فارقات وغیرہ کے اندر چھپادی گئی ہیں اور نیز چونکہ قسم کا اسلوب ہے اس لئے ان
اشیاء کا شہادت اور دلیل ہونا مزید برآں ہے اور اس پہلو سے گویا اس میں دوہری
یہاں یہ نکتہ بھی قابل لحاظ ہے کہ جہاں کہیں یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ مخاطب ہوشیار
دیا جاتا ہے ،مثالً ٰیسن والقرآن الحکیم ،انک لمن المرسلین ٰ(یسن ۱۔( )۲قرآن حکیم کی
قسم تم خدا کے فرستادوں میں سے ہو) یا جواب قسم کو ،جس کا جملہ خبریہ کی شکل
میں ہونا ناگزیر ہے ،حذف کردیا جاتا ہے اور صرف قسم بہ پراکتفا کرکے اس کے بعد
کوئی ایسی بات الئی جاتی ہے جو محذوف پر دلیل ہو ،تاکہ مخاطب کو اتنی فرصت ہی
نہ ملے کہ وہ انشاء کو خبر کی صورت میں ڈھال کر اس کے تردید وانکار کے لئے
آمادہ ہو۔ اس وقت وہ قسم کے بعد کی بات سننے کے لئے کان لگاتا ہے تاکہ اس کی
تردید کرسکے لیکن دفعتا ً اس کے سامنے ایک ایسی بات آجاتی ہے جس کا مقصود اس
استدالل کو قوت پہونچانا ہوتا ہے جو سابق کالم میں پیش نظر تھا ،مثالً:
ص ،والقرآن ذی الذکر بل الذین کفروا فی عزۃ وشقاق (ص ۱۔( )۲پرنصیحت قرآن کی
قسم ،بلکہ کافر گھمنڈ اور عناد میں مبتالء ہیں) اس آیت میں جملہ انشائیہ پر اکتفا کیا،
جملہ خبر یہ نہیں الئے۔ قسم کے ساتھ جو صفت مذکور تھی گویا وہی خبر کی قائم مقام
ہوگئی یعنی پوری بات یوں ہوئی کہ قرآن مجید شاہد ہے کہ وہ ان کے لئے یاد دہانی اور
نصیحت ہے۔‘‘ اس کے بعد ان کے بعض ایسے خصائل کا ذکر کیا گیا جس سے ان کو
انکار نہیں تھا بلکہ ان پر فخر کرتے تھے اور واضح کردیا کہ ان کا یہ اعراض محض
اسی سے مشابہ سورۂ ق کی قسم ہے ۔ ق والقرآن المجید ،بل عجبوا ان جاء ھم منذر منھم
فقال الکافرون ھذا شئی عجیب (۱۔( )۲قرآن بزرگ کی قسم ،بلکہ ان کو تعجب ہے کہ ان
کے پاس انہی میں سے ایک ہوشیار کرنے واال آیا۔ پس کافروں نے کہا یہ تو ایک
لفظوں میں بعث کی خبر دینے واال ہے لیکن وہ صرف اس وجہ سے اس کے منکر ہیں
کہ ان کی نظر میں یہ بات عجیب ہے کہ اس کی خبر دینے واال انہیں کے اندر کا ایک
آدمی ہے۔
ہاں اگر قسم ایسی ہے کہ مخاطب کو اس سے انکار نہیں ہے تو ایسے مواقع پر جواب
ٰ
جعلنہ قرآنا ً عربیا لعلکم قسم کو حذف نہیں کیا گیا ہے ،مثالً :حم والکتاب المبین ،انا
تعقلون (الزخرف۱۔( )۳شاہد ہے واضح کتاب ،بالشبہ ہم نے بنایا اس کو عربی قرآن تاکہ
تم لوگ سمجھو) اس میں قسم کے ساتھ واضح اور کھلی ہوئی ہونے کا ذکر کیاگیا ہے،
قرآن عربی ہونے کا ذکر ہے اور یہ دونوں باتیں ایسی ہیں جن
ِ اور جواب میں اس کے
سے کسی کو انکار نہیں تھا۔ پھر لطف یہ ہے کہ یہاں قرآن مجید کے منزل من ہللا ہونے
کو عالحدہ دعوے کی شکل میں نہیں پیش کیاگیا ۔ کیونکہ یہ بات خود کالم کے اندر
مضمر ہے جبکہ اس نے کالم کو اپنی طرف منسوب فرمایا ،اس کا فائدہ یہ ہے کہ انکار
’’اس اسلوب کی تیسری خوبی استدالل کے لئے اس کی موزونیت ہے۔ اس اسلوب میں
اختصار ہوتا ہے اور جب الفاظ کم ہوں تو مفہوم تمام حجابات سے مجرد ہوکر سہولت
سے سامنے آجاتا ہے اور اس سے مضمون کی تاثیر اور زور میں اضافہ ہوجاتا ہے ‘‘
(اقسام القرآن‘‘ )۱۰۲قرآن کے ادبی مرتبہ کی جستہ جستہ کچھ اور مثالیں پیش ہیں۔
یعنی جس بات کے بیان کرنے پر ہم ہللا کی طرف سے مامور ہیں ،عظمت ٰالہی کے
دی گئی۔
’’عمر اور عمر عربی میں ہم معنی ہیں لیکن قسم کھانے کے موقعہ پر عمر ہی آتا ہے،
یہاں ۔ل قسم کا ہے عربی اسلوب بالغت میں قسم ایک ادبی صنعت وفنکاری ہے اور
ق عرب پرگراں نہیں گزریں اور جو اہل زبان مخالفت میں غرق اور
مجید کی قسمیں مذا ِ
اعتراض ونکتہ چینی کے لئے تلے ہوئے بیٹھے تھے ان میں سے کسی نے یہ نہ پوچھا
کہ خدا کے کال م میں یہ مخلوقات کی قسمیں کیسی؟ اور قسموں کے فلسفے یا ان کی
ت عقلی پر توجہ صرف عجمی اور ہندی اہل علم نے شروع کی۔
توجہا ِ
’’موقع تحدید پر صیغہ ایک طرف تو غائب سے مخاطب ہوا اور دوسری طرف متکلم
زور تاکید کے موقعہ پر قسم کا النا عربی اسلوب بیان کی
سے ،غائب کا ہوگیا ’تاہلل‘ ِ
ایک صنعت ہے ’تاہلل‘ حرف قسم کا ’ت‘ کے ساتھ النا لفظ ہللا ہی کے ساتھ مخصوص
سورۃ الزخرف ،سورۃ ق اور سورۃ طور وغیرہ میں ’و‘ کا استعمال قسم کے مفہوم میں
ہوا ہے اور قسم عربی میں شہادت کے لئے آتی ہے جیساکہ ذیل کی عبادت سے ظاہر
ہوتا ہے:
شہادت کیلئے کافی ہے کہ تم رسو ل کے زمرے سے تعلق رکھنے والے ہو ،رسول کے
سوا کوئی دوسرا اس طرح حکیمانہ اور معجزانہ کالم پیش کرنے پر قادر نہیں ہے ،اس
سے معلوم ہوا کہ قرآن کے اعجاز میں اصل دخل اس کی حکمت اور اس کے فلسفے
قرآن بالکل ایک واضح کتاب بلحاظ اپنے پیش کئے ہوئے مہمات عقائد کے اور بلحاظ
واولی کے بھی ’و‘ کوکالم عرب میں تاکید اور زور کالم کے موقع
ٰ اپنے احکام اساسی
پر قسم میں النے کا دستور عام ہے اور استشہاد کا پہلو جو قسم میں ہوتا ہے وہ اس
خاص موقع پر عیاں اور ظاہر ہے یعنی قرآن پر غور کرنے سے خود اس کے مضامین
کا اعجاز ظاہر ہورہا ہے ،یہ عربی اسلوب بیان کی فصاحت ہے کہ جب عرب ادیب،
خطیب اورشاعر کو اپنی شجاعت ودلیری کا اظہار مقصود ہوتا تو بجائے اس کے کہ
اردو محاورہ کے مطابق یہ کہے کہ میرے کارناموں پر میری تلوار گواہ ہے وہ یہ کہے
اپنے ہر دعوے پر خود حجت ہے اور کسی خارجی دلیل کا محتاج نہیں ہے جو لوگ اس
کی تکذیب کے بہانے ڈھونڈ رہے ہیں وہ حقیقت میں آفتاب پر خاک ڈالنے کی کوشش
کررہے ہیں ،ایک مختصر سی آیت میں معنی کا یہ سمندر قرآن کی فصاحت وبالغت کا
والقرآن المجید (سورہ ق آیت )۲عربی اسلوب بیان میں قسم کا مفہوم تاکید کا ہوتا ہے
اور جواب قسم یعنی قسم کے بعد کا مضمون اکثر بغیر کسی تصریح کے محض سیاق
وسباق سے سمجھ لیا جاتا ہے قسموں کی بحث کا تعلق تمام تر اسلوب بیان اوربالغت
سے ہے یہاں قرآن مجید کی قسم کا مفہوم صرف اس قدر ہے کہ یہ کتاب اپنے مضامین
کی بے نظیر بلندی اور معنویت کے لحاظ سے اپنی صداقت اور آپ ﷺ کی رسالت
پرخود گواہ ہے ،المجید ’’یعنی بزرگی اور شرف واال قرآن ،آج دنیا کی کون سی کتاب
اپنی معنویت اور بلندی کے لحاظ سے اس کے ہمسر کی ہے۔ کس صحیفہ مذہب کو اس
والطور (سورہ طور آیت ایک) یعنی پہاڑ گواہ ہیں کہ جو آج اپنی جگہ پر اتنے مضبوط
ومستحکم نظر آرہے ہیں ،لغت میں طور کا مفہوم عام پہاڑ ہے یعنی مطلق پہاڑ یہی
سیاق سے زیادہ مناسب ہے۔ والطور سے لیکر والبحر تک واؤ پانچ بارآیا ہے ان میں
اعلی
ٰ سے واؤ اول قسم کا ہے اور باقی واؤ عطف کے ہیں اور یہ قرآنی انشاء کی ایک
مثال ہے۔
دیکھئے ماہر نقاش کے برش آفتاب کی روشنی اور رات کی تاریکی کی کس مہارت
کے ساتھ بیک وقت منظر کشی کردی ہے اس ملی جلی فضا کا صحیح ادراک ایک
محض وقت کا مفہوم ادا کرنے کے لئے عربی زبان میں زمان ،دہر وغیرہ اور لفظ بھی
تھے لیکن گزرتے ہوئے زمانہ کی طرف خاص اشارہ کرنے واال یہی لفظ عصر ہے۔
یعنی قسم زمانہ کی جس میں انسان کی عمر بھی داخل ہے اسے تحصیل علم وکماالت
کے لئے ایک متاع گراں مایہ یہ سمجھنا چاہئے۔ اگر یہ غفلت وبھول میں گزر گئی تو
قرآن حکیم کی جن سورتوں کے شروع میں قسمیں آئی ہیں ان کی بھی ادبی اہمیت ہے،
بلکہ یہ کہا جائے تو صحیح ہوگا کہ ان قسموں نے مذکورہ سورتوں کے حسن اور بیان
کی ندرت میں اضافہ کرکے ان کو ایک عنوان جمال بخش دیا ہے۔ جیسا کہ ’’اقسام
سورتوں کے اوائل میں یہ قسمیں اس طرح چمکتی ہیں جس طرح انگشتری میں نگینہ،
بعض جگہ سورتوں کے بیچ میں بھی قسمیں آئی ہیں لیکن کم ،مگر جہاں کہیں آئی ہیں
ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے مطلع قصیدے کے بیچ میں آگیا ہو۔ قسم کا مقصود زیبائش
کالم یقیناًنہیں ہے لیکن جب یہ آغاز کالم کے لئے موزوں سمجھی گئی تو اس کے لئے
وہ تمام لوازم تصویر اختیار کرلئے گئے جو اگر دیباچہ کے مضمون میں مصور
آخر میں صرف یہ عرض کرنا ہے کہ قسم کے لئے ’و‘ کا استعمال ہو یا ’ل‘ کا یا لفظ
قسم کا بظاہر اس کا یہ اندازہ نہایت سادہ ہے لیکن کائنات کی حقیقت کو اپنے اندر
سموئے ہوئے ہے ،معمولی سا نظر آنے واال یہ جملہ عقل انسانی کو ہالکر رکھ دینے
والے اسلو ب کا مالک ہے۔ ایک ایسا اسلوب جس نے بڑے بڑے علوم کے دروازے
کھول دیئے ہیں اور کالم کے ایسے اچھوتے نمونے چھوڑے ہیں کہ صدیوں سے لوگ
اس پر سردھن رہے ہیں لیکن نئے نئے معنی کی تالش کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
قرآن حکیم میں مذکورہ قسموں کا ایک پہلو اور قابل غور ہے جس کی طرف عالمہ
کے لئے نہیں بلکہ وہ اس لئے ہیں کہ ان کی گہرائی ،خوبی اور کیفیت سے انسان
متعارف ہو ،ان کو سمجھے اور یہ حقیقت اس کے پیش نظر رہے کہ ان کو بنانے والے
(مالک حقیقی) کی ذات کتنی عظیم ہوگی۔ (عالمہ السیوطی ’’االتفاق فی العلو م
القرآن‘‘)۱۴۱/۲
بہر حال قرآن مجید خداوند عالم کی ایک ایسی کتاب ہے جس کی وسعت کا احاطہ کرنا
اور اس کے انداز بیان کی گہرائی تک پہونچنا انسان کے بس کی بات نہیں ،صرف قرآن
کی قسموں کے ادبی اعجاز یا اس کے اسلوب بیان پر روشنی ڈالی جائے تو اس کے
لئے صفحات کے صفحات درکار ہوں گے اور گفتگو پھر بھی ناتمام رہے گی کیونکہ
جس ندرت ادا ،حسن تعبیر اور زور بیان کا نام ادب ہے وہ قرآن اور اس کی قسموں میں